Sunday, July 26, 2015

Construction of Masjid e Nabwi (S.A.W)

لوگ تاج محل کو محبت کی علامت قرار دیتے ھیں مگر یقین کریں کہ عثمانی دور میں مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر تعمیرات کی دنیا میں محبت اور عقیدت کی معراج ھے، زرا پڑھیے اور اپنے دلوں کو عشق نبی ﷺ سے منور کریں ۔ 

ترکوں نے جب مسجد نبوی کی تعمیر کاارادہ کیا تو انہوں نے اپنی وسیع عریض ریاست میں اعلان کیا کہ انھیں عمارت سازی سے متعلق فنون کے ماہرین درکار ھیں، اعلان کرنے کی دیر تھی کہ ھر علم کے مانے ھوۓ لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں، سلطان کے حکم سے استنبول کے باہر ایک شہربسایا گیا جس میں اطراف عالم سے آنے والے ان ماہرین کو الگ الگ محلوں میں بسایا گیا، اس کے بعد عقیدت اور حیرت کا ایسا باب شروع ھوا جس کی نظیر مشکل ھے، خلیفۂ وقت جو دنیا کا سب سے بڑا فرمانروا تھا ، شہر میں آیا اور ھر شعبے کے ماہر کو تاکید کی کہ اپنے ذھین ترین بچے کو اپنا فن اس طرح سکھاۓ کہ اسے یکتا و بیمثال کر دے، اس اثنا میں ترک حکومت اس بچے کو حافظ قرآن اور شہسوار بناۓ گی، دنیا کی تاریخ کا یہ عجیب و غریب منصوبہ کئی سال جاری رھا ، 25 سال بعد نوجوانوں کی ایسی جماعت تیار ھویٔ جو نہ صرف اپنے شعبے میں یکتا ۓ روزگار تھے بلکہ ہر شخص حافظ قرآن اور با عمل مسلمان بھی تھا، یہ لگ بھگ 500 لوگ تھے، اسی دوران ترکوں نے پتھروں کی نئی کانیں دریافت کیں، جنگلوں سے لکڑیاں کٹوایٔیں، تختے حاصل کئے گئے اور شیشے کا سامان بہم پہنچایا گیا،یہ سارا سامان نبی کریم ﷺ کے شہر پہنچایا گیا تو ادب کا یہ عالم تھا کہ اسے رکھنے کے لیۓ مدینہ سے دور ایک بستی بسایٔ گیٔ تا کہ شور سے مدینہ کا ماحول خراب نہ ھو، نبی ﷺ کے ادب کی وجہ سے اگر کی پتھر میں ترمیم کی ضرورت پڑتی تو اسے واپس اسی بستی بھیجا جاتا، ماھرین کو حکم تھا کہ ھر شخص کام کے دوران با وضو رھے اور درود شریف اور تلاوت قرآن میں مشغول رھے، ھجرہ مبارک کی جالیوں کو کپڑے سے لپیٹ دیا گیا کہ گرد غبار اندر روضہ پاک میں نہ جاۓ، ستون لگاۓ گئے کہ ریاض الجنت اور روضہ پاک پر مٹی نہ گرے ، یہ کام پندرہ سال تک چلتا رھا اور تاریخ عالم گواہ ھے ایسی محبت ایسی عقیدت سے کویٔ تعمیر نہ کبھی پہلے ھویٔ اور نہ کبھی بعد میں ھوگی.Forwarding asv received● www.raremakkahmadina.blogspot.com

Monday, July 20, 2015

Kala Bagh Dam

ہندوستان سے پیسہ لے کر کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرنے والو، تمہاری وجہ سے ہم اندھیروں میں اور آبپاشی والا پانی ہمیں تباہ کرتا ہوا ضائع ہو رہا،

Gaddar ke gaddari zinda rehti hay

ﺳﻠﻄﺎﻥ ﭨﯿﭙﻮ ﮐﻮ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺩﮬﻮﮐﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ، ﻭﮦ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺳﮯ ﺩﻏﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﮯ ﻭﻓﺎ ﮐﯽ۔ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻧﮯ ﺍﻧﻌﺎﻡ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﺌﯽ ﭘﺸﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﻮﺍﺯﺍ۔ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﮨﺎﻧﮧ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﻼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻣﮕﺮ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﺟﮩﺎﻥ ! ﺟﺐ ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﮐﯽ ﺍﮔﻠﯽ ﻧﺴﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﺮ ﻣﺎﮦ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﻋﺪﺍﻟﺖ ﺁﺗﺎ ﺗﻮ ﭼﭙﮍﺍﺳﯽ ﺻﺪﺍ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ۔

" ﻣﯿﺮ ﺻﺎﺩﻕ ﻏﺪّﺍﺭ ﮐﮯ ﻭﺭﺛﺎﺀ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ۔ "

ﺍﯾﮏ ﺁﻧﺴﻮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﺳﮯ ﭘﮭﺴﻼ ﺍﻭﺭ ﺗﮑﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺬﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔

" ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ! ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ ، ﺟﯿﺴﮯ ﺷﮩﯿﺪ ﻗﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﺳﯿﮑﮍﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﺯﻧﺪﮦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ، ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻏﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﻏﺪﺍﺭﯼ... #Pakistan #Politics 

Thursday, July 16, 2015

Farewell Dua For Ramadan

Farewell Dua For Ramadan      

"Ya Allah this blessed month of Ramadan is now coming to an end, please help me to remain steadfast in your Deen. Grant me the knowledge of Deen. Ya Allah, you are truly merciful, please forgive me. Choose for me, what is best. Ya Allah help me to succeed in this life and the hereafter. Ya Allah, if I have been in anyway ungrateful, unjust, dishonest; please forgive me. Ya Allah, I don't know if i'll be alive next Ramadan, please forgive me. Grant me a place in paradise. Save me from hell fire. Ya Allah, include me in the people who will be put in heaven without accountibility. Ya Allah,  help me to spread your Deen in the best of ways. Ya Allah please let me not be among the backbitters. Ya Allah forgive me if I have been among the arrogant. Ya Allah forgive me and the person who sent this to me. Grant us success. Verily you are most forgiving, most merciful."

Ameen!


Monday, July 13, 2015

Present political position of Pakistan

پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ میں انڈیا شکست کے دھانے پر ہے ۔
انڈیا افغان پارلیمنٹ پر اپنے کرائے گئے حملے سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ۔ پاک آرمی کسی نہ کسی طرح افغان طالبان اور افغان حکومت کو مزاکرات کی ٹیبل پر لے ہی آئی اور دونوں فریقوں کا اعتماد بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔
ان مزاکرات میں چین اور امریکہ کو شامل کیا گیا ہے جن کو اقوام متحدہ کے برابر سمجھنا چاہئے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانی والی کوششوں میں امریکہ سمیت کوئی بھی انڈیا کا نام تک نہیں لے رہا۔
انڈیا ان مزاکرات کی کامیابی کا مطلب بخوبی جانتا ہے ۔ انڈیا کے لیے افغانستان میں بیٹھنا اور وہاں سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ناممکن ہو جائیگا۔
بلوچستان نہایت تیزی سے امن کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ 40 /40 سال سے لڑنے والے بی ایل اے کے کمانڈرز اپنے ہتھیار ڈال کر دوبارہ پاکستانی جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں ۔ کل بلوچستان میں ٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ کروایا گیا جس میں بلوچوں نے "جیوے جیوے بلوچستان" اور "جیوے جیوے پاکستان" کے نعرے لگائے ۔
ان نعروں نے انڈیا کے سینے پر جو چھریاں چلائیں سو چلائیں لیکن سنا ہے پاکستان میں بھی کچھ لوگوں کو شدید تکلیف ہوئی ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اور حامدمیر بلکل خوش نہیں ہیں ۔۔
صوبہ خیبر میں ٹی ٹی پی کو تقریباً مفلوج کردیا گیا ہے ۔ وہاں جنگ اب محدود سے علاقے میں رہ گئی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی وہاں سے بھی صفایا کر دیا جائیگا۔
ہاں کراچی اور سندھ میں ضرور انڈیا کو ابھی کچھ امید باقی ہے ۔ کیونکہ وہاں پاک آرمی کے خلاف ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مزاحمت کر رہی ہیں ۔
لیکن ایک چیز نوٹ کی جانی چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کو پاک آرمی کے مقابلے میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ اسلئے وہ آئینی اور قانونی گورکھ دھندوں کا سہارا لے رہی ہیں اور بدقسمتی سے عدلیہ انکا ساتھ دے رہی ہے ۔
تاحال پاک آرمی وہاں بھی کوئی سستی دکھانے پر تیار نہیں جس کا ایک ثبوت راحیل شریف کا ساؤتھ افریقہ کا دورہ ہے ۔
سنا ہے کراچی میں ضرب عضب سے بھاگ کر بہت سے لوگ ساؤتھ افریقہ گئے ہیں ۔ جہاں کی نہ صرف نیشنلٹی جلدی مل جاتی ہے بلکہ وہاں سے کراچی میں آپریٹ بھی کیا جا رہا ہے ۔
راحیل شریف کے لندن دورے کے بعد الطاف حسین پر مسلسل " دورے " آرہے ہیں ۔ ساؤتھ افریقہ کے اس دورے کے نتیجے میں بھی کچھ لوگوں پر سخت وقت آنے والا ہے ۔
انڈیا پاکستان کےخلاف اگر یہ پراکسی جنگ ہارتا ہے تو اس کے لیے مقبوضہ کشمیر پر بھی اپنا کنٹرول برقراررکھنا مشکل ہوجائیگا۔
لیکن اس جنگ میں مکمل فتح کے لیے آپکی فوج کو آپکی ضرورت ہے ۔ وہ اپ سے لڑنے کے لیے نہیں کہے گی ۔ انکو صرف آپکا اعتماد چاہئے ۔ یہ احساس کہ آپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ بس ۔۔۔
باقی جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر نامی دونوں شیر انڈیا کے لیے کافی ہیں ۔

Sunday, July 12, 2015

Primary Education and our children's

اپنے بچوں پر رحم کیجئے- - گل نوخیز اختر

------------------------

ہمارے دور میں پرائمری سکولوں میں داخلے کے وقت اکثر بچوں کی عمرکچھ زیادہ بتائی جاتی تھی کیونکہ چھ سال سے کم عمر کے بچے کو ’’کچی‘‘ میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔آج کل میری آنکھیں پھیل جاتی ہیں جب میں اڑھائی سال کے بچے کو سکول جاتے دیکھتاہوں۔ والدین پریشان ہوئے پھرتے ہیں کہ کہیں بچے کی تعلیم کا ’’حرج‘‘ نہ ہوجائے۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ابھی ٹھیک سے چلنا سیکھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں مونٹیسوری اور پری کلاسز اٹینڈ کرنا پڑ جاتی ہیں۔پچھلے دنوں مجھے ایک ایسے ہی سکول میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہاں بچوں کی حالت دیکھ کرترس آنے لگا۔ ننھے منے سے بچے کلاس روم میں اونگھ رہے تھے‘ کچھ بیزار بیٹھے تھے اور کچھ موٹے موٹے آنسو بہا رہے تھے۔ یہ بچے جنہیں گھر کے ماحول سے آشنا ہونا چاہیے تھا ابھی سے سکول جانا شروع ہوگئے ہیں۔پتا نہیں ایسی کیا قیامت آگئی ہے کہ ہمیں جلد از جلد بچے کو سکول بھیجنے کی پڑی ہوتی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ تعلیم اور شعور اہم ہے لیکن کیا یہ سب چیزیں پانچ چھ سال کی عمر تک بچہ گھر میں نہیں سیکھ سکتا۔ اصل میں اکثرماؤں کو بھی آسانی ہوگئی ہے کہ بچے کو سنبھالنے کی بجائے اسے تعلیم و تربیت کے نام پر سکول بھیج دیتی ہیں اور خود اطمینان سے سٹار پلس لگا کربیٹھ جاتی ہیں۔

نوکری پیشہ خواتین کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اُن ماؤں کو کیا پرابلم ہے جو خود بچے کو گھر میں بہت کچھ سکھا سکتی ہیں۔ پچھلے دنوں مجھے ایک ایسے سکول کا اشتہار پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں سکول انتظامیہ نے ڈیڑھ سال کے بچوں کے لیے بھی کوئی انگریزی نام والی نئی کلاس شروع کی ہے۔ ایسے سکولوں کا بس نہیں چلتا کہ وہ بچے کو پیدا ہوتے ہی اپنی تحویل میں لے لیں۔ہر چیز کی ایک عمر ہوتی ہے‘ وہ بچے جنہیں بچپن میں ہی مدبر بنا دیا جاتا ہے وہ ساری زندگی اپنا بچپن تلاش کرتے رہتے ہیں۔ زمانے کی ترقی نے بچپن کی عمر بھی گھٹا دی ہے‘ پہلے بچپن آٹھ سے دس سال تک کا ہوتا تھا۔آج کل ایک ڈیڑھ سال میں ہی ختم ہوجاتاہے۔وہ بچے جن کی صحت کے لیے جی بھر کے سونا ضروری ہوتا ہے انہیں ماں کچی نیند سے اٹھا کر سکول کے لیے تیار کرنا شروع کر دیتی ہے۔

بچہ اپنے ابتدائی پانچ چھ سالوں میں جو کچھ سیکھتا ہے وہ گھر سے ہی سیکھتاہے اور اس میں ایک اعتماد پیدا ہوتاہے۔ دنیا میں کوئی سکول اڑھائی سال کے بچوں کو باتھ روم جانے کے عملی طریقے نہیں سکھاتا ‘ سونے کے آداب نہیں بتاتا‘ یہ سب چیزیں مائیں بتاتی ہیں اور انہیں سمجھنے میں بچے کو کچھ وقت لگتاہے اسی لیے پہلے وقتوں میں لازم تھا کہ بچہ شعور کی ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد سکول میں داخل ہو تاکہ کم ازکم و ہ اپنا آپ سنبھال سکے۔ آج کل ایسا نہیں ہوتا۔بچے ڈائپرز پہن کر سکول آتے ہیں اور والدین بھاری فیسیں دے کر خوش ہوتے ہیں کہ ان کا بچہ چھوٹی سی عمر میں ہی آئن سٹائن بن رہا ہے۔

بچے جوں جوں تعلیم سے آشنا ہورہے ہیں‘ علم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ آپ کسی چھٹی یا ساتویں کلاس کے بچے کا نصاب دیکھئے‘ آپ کے ہوش اڑ جائیں گے۔ بچوں کی میتھ کی کتابیں دیکھ کر سر چکرا جاتاہے‘ لیکن خوشی ہوتی ہے کہ جو چیز ہم نے سولہ سالوں میں سیکھی ‘ وہ ہمارا بچہ سات سالوں میں سیکھ رہا ہے۔یہ وہ سوچ ہے جو ہمیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کا موقع نہیں دے رہی۔بچے بڑوں جیسی باتیں کرنے لگے ہیں‘ بڑوں والے ڈرامے دیکھتے ہیں‘ بڑوں والی فلمیں دیکھتے ہیں اور اکثر گھریلو معاملات میں بھی بزورِ دلائل اپنا حصہ ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ قصور ہمارا اپنا ہے‘ ہم نے بچے کو بچہ رہنے ہی نہیں دیا۔ہم خود تو چالیس سال کی عمر میں بھی بچپنا نہیں چھوڑتے لیکن اپنے بچوں کو اڑھائی سال میں ہی بزرگ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔توتلی زبان میں باتیں کرنے والا بچہ جب اٹھا کر سکول میں ڈا ل دیا جائے تو کیا یہ اس کے ساتھ ظلم نہیں؟؟؟

یہ وباء پورے ملک میں پھیلتی جارہی ہے اور دلیل یہ دی جاتی ہے کہ بچہ اتنی چھوٹی عمر میں کتابیں نہیں پڑھ رہابس سکول جاکر کھیل ہی کھیل میں سیکھنے کی کوشش کرتاہے۔ عالی جاہ! یہ چھوٹا بچہ روزانہ ٹائم پر اٹھے گا‘ ٹائم پر تیار ہوگا اور ٹائم پر سکول کے لیے روانہ ہوگا تواس کی زندگی میں بے ترتیبی کا حسن کہاں جائے گا؟؟ ؟ کچھ سال بعد اس نے سکول تو جانا ہی جانا ہے ‘ پھر اس کی چھوٹی چھوٹی شرارتوں کو ابھی سے تہذیب کے دائرے میں قید کرنے کی کیا ضرورت ہے؟کیاپانچ چھ سال کی عمر میں سکول جانے والے بچے بدتہذیب ہوجاتے ہیں؟ کیا تہذیب کا انحصار بچے کو چھوٹی عمر میں سکول بھیجنے میں ہی ہے؟کہیں یہ اپنے فرائض سے جان چھڑانے کی کوئی کوشش تو نہیں؟ چھوٹابچہ جو اپنے اردگرد کا ماحول بھی سمجھنے سے قاصر ہوتاہے اسے اتنی کم عمری میں ’’ڈیوٹی‘‘پر لگا دینا کہاں کا انصاف ہے؟؟؟

چھ سال کا بچہ جب سکول میں داخل ہوتاہے تو وہ بھی پہلے دن روتاہے‘ کچھ گھبراتاہے‘ لیکن اسے سمجھایا جاسکتاہے‘ بات کی جاسکتی ہے لیکن اڑھائی سال کا بچہ جو صبح دیر تک سونا چاہتا ہے‘ ماں سے لپٹا رہنا چاہتاہے‘ گھر میں اودھم مچانا چاہتاہے‘ بیڈ پر چھلانگیں لگانا چاہتاہے‘ ماں کی گود میں بیٹھنا چاہتا ہے اسے جب سکول جانے کا عادی بنا دیا جاتا ہے تو اس کی ساری شوخیاں‘ ساری کلکاریاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔ یہ بچہ تہذیب تو سیکھ جاتاہے لیکن معصومیت سے عاری ہوجاتاہے۔جس عمر میں اسے کپڑوں کا تکلف بھی نہیں کرنا چاہیے اُس عمر میں وہ یونیفارم سے آشنا ہوجاتا ہے‘ ننگے پاؤں گھومنے کی خوشی چھین کر اسے کالے بوٹوں میں قید کردیا جاتاہے اور اوائل عمری سے ہی اس کے ذہن اس جملے کے عادی ہوجاتے ہیں’’چلو بیٹا! اب سو جاؤ صبح سکول کے لیے بھی اٹھنا ہے‘‘۔

ہم سب اپنے بچوں کا بہتر مستقبل چاہتے ہیں‘ والدین کے ذہن میں بھی یہی ہوتاہے کہ شاید کم عمری میں بچے کو سکول بھیجنے سے ان کا بچہ زیادہ جلدی پڑھا لکھا ہوجائے گا حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم بچے کو علم سے آشنا کرنے کی بجائے نئی زبان سکھانے میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہوتے ہیں۔ آٹھ سال کا بچہ اگر انگریزی میں بات کرے تو اِسے بخوشی علم کی معراج سمجھ لیا جاتا ہے‘ ان کی نسبت اردو بولنے والے بچے ناخواندہ شمار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارے زمانے میں انگریزی کی ٹیویشن رکھنا پڑتی تھی‘ آج کل اردو کی رکھنا پڑتی ہے۔بچہ رومن اردو تو فٹافٹ لکھ لیتا ہے لیکن ’’اصل اردو‘‘ لکھنے کو کہا جائے تو اسے یہ بھی سمجھ نہیں آتا کہ ’’ہجے‘‘ کسے کہتے ہیں۔

تعلیم بہت ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ تربیت ضروری ہے۔ اور تربیت سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ دودھ پیتے بچوں کو مشینی زندگی میں دھکیل دیا جائے۔ جن بچوں کو گھر کی ضرورت ہے انہیں اپنی خوشیاں گھر میں منانے کا بھرپور موقع دیں‘ انہی کے دم سے گھر میں رونق ہوتی ہے ‘ انہی کی شرارتیں گھر کی جامد فضا کا سحر توڑتی ہیں۔۔۔انہیں کچھ دن تو یہ عیش کرلینے دیجئے‘ ایسا نہ ہو کہ جب یہ بچے بڑے ہوں اور کوئی ان سے پوچھے کہ بیٹا آپ بچپن میں کون سی شرارتیں کیا کرتے تھے اور یہ ہکا بکا رہ جائیں کہ شرارتیں کیا ہوتی ہیں؟؟؟

السلام علیکم homeodriqbal.blogspot.com

Saturday, July 4, 2015

#Click & Share for consultation homeodriqbal.blogspot.com

#Click & Share  #online #consultation #skin #problems #diseases #beauty #homeopathic for consultation contact homeodriqbal.blogspot.com 

The second name of Sacrifices is woman

قربانی اور ایثار کا دوسرا نام عورت ھے !
========================
ﻋﻮﺭﺕ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﭨﮭﮯ ، ﺳﺤﺮﯼ ﺑﻨﺎئے، ﺳﺐ ﺳﮯ ﺁﺧﺮ ﻣﯿﮟ کھائے ، ﭘﮭﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ، ﺩﻭﭘﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﮑﺎئے، ﭘﮭﺮ ﭼﺎﺭ ﺑﺠﮯ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﻮﮨﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﺴﺮﺍﻝ يا گھر والوں ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ اور کھانا ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺟﺖ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ،
ﭘﮑﻮﮌﮮ ،ﺩﮨﯽ ﺑﮭﻠﮯ ، ﭼﮭﻮﻟﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺟﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﺩﮬﮍﮐﺎ ﮐﮧ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﻮﮨﺮ ، ﺑﺎﭖ ﯾﺎ ﺳﺴﺮ ﮐﻮ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ، ﺷﻮﮨﺮ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﮮ ﭘﮭﺮ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺗﮏ ﭘﮑﻮﮌﮮ تلتی ﺭﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﺳﯽ ﭘﮑﻮﮌﮮ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ،
ﺳﺐ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﺗﻮ ﻭﮦ ﭼﭙﮑﮯ ﺳﮯ ﺁﮐﺮ ﺭﻭﺯﮦ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﺎﻡ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﮐﮭﻼﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﭘﻼﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﺮﺗﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ ،ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻓﻄﺎﺭﯼ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺳﮑﯽ ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺑﻠﮑﮧ ﭘﮑﻮﮌﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺷﺮﺑﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮨﯽ ﻣﻠﺘﯽ ﮨﮯ ، اسکے بعد کھانا اور پھر چاۓ ۔ سب اس کی ذمہ داری۔
ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﻤﺎﻡ ﺩﺳﺘﺮﺧﻮﺍﮞ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﺮ ﺳﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺧﺘﻢ ﮐﺮﮐﮯ ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ کو فارغ ہوﺗﯽ ﮨﮯ ۔ ابھی تراويح بھی پڑھنی ہے۔ ﺍﻭ ﮨﺎﮞ ﺍﺳﮯ ﺻﺒﺢ دو ﺑﺠﮯ ﺍﭨﮭﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ﮨﮯ، ﺍﻻﺭﻡ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ لگانا ﮨﻮﮔﺎ ﻭﺭﻧﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﻧﮑﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﯽ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻐﯿﺮ ﺳﺤﺮﯼ ﮐﺎ ﺭﻭﺯﮦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﺭﺍ ﺩﻥ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺑﺮﺩﺍﺷﺖ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ، ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺷﺘﮧ ﮨﮯ ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﻮﯼ ﯾﺎ ﺑﯿﭩﯽ ﺍﻥ کی قدر کریں ، ان ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍٓﭖ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﯿﮟ! اگر ہو سکے تو ان کا ہاتھ بٹائيں ، آور اگر آپ کو روزہ زيادہ ہی لگ رہا ہے تو کم ازکم ميٹھے لہجے ميں بات ہی کر ليجيے ۔ ان کے ليے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہيں ہو گا کہ ان کو ان کے ہونے کا احساس دلايا جاۓ اور ان کی قدر کی جاۓ۔