پاکستان کے خلاف پراکسی جنگ میں انڈیا شکست کے دھانے پر ہے ۔
انڈیا افغان پارلیمنٹ پر اپنے کرائے گئے حملے سے مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ۔ پاک آرمی کسی نہ کسی طرح افغان طالبان اور افغان حکومت کو مزاکرات کی ٹیبل پر لے ہی آئی اور دونوں فریقوں کا اعتماد بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔
ان مزاکرات میں چین اور امریکہ کو شامل کیا گیا ہے جن کو اقوام متحدہ کے برابر سمجھنا چاہئے ۔مزے کی بات یہ ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانی والی کوششوں میں امریکہ سمیت کوئی بھی انڈیا کا نام تک نہیں لے رہا۔
انڈیا ان مزاکرات کی کامیابی کا مطلب بخوبی جانتا ہے ۔ انڈیا کے لیے افغانستان میں بیٹھنا اور وہاں سے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ناممکن ہو جائیگا۔
بلوچستان نہایت تیزی سے امن کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ 40 /40 سال سے لڑنے والے بی ایل اے کے کمانڈرز اپنے ہتھیار ڈال کر دوبارہ پاکستانی جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں ۔ کل بلوچستان میں ٹی 20 کرکٹ ٹورنامنٹ کروایا گیا جس میں بلوچوں نے "جیوے جیوے بلوچستان" اور "جیوے جیوے پاکستان" کے نعرے لگائے ۔
ان نعروں نے انڈیا کے سینے پر جو چھریاں چلائیں سو چلائیں لیکن سنا ہے پاکستان میں بھی کچھ لوگوں کو شدید تکلیف ہوئی ہے ۔ عاصمہ جہانگیر اور حامدمیر بلکل خوش نہیں ہیں ۔۔
صوبہ خیبر میں ٹی ٹی پی کو تقریباً مفلوج کردیا گیا ہے ۔ وہاں جنگ اب محدود سے علاقے میں رہ گئی ہے اور امید ہے کہ جلد ہی وہاں سے بھی صفایا کر دیا جائیگا۔
ہاں کراچی اور سندھ میں ضرور انڈیا کو ابھی کچھ امید باقی ہے ۔ کیونکہ وہاں پاک آرمی کے خلاف ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں مزاحمت کر رہی ہیں ۔
لیکن ایک چیز نوٹ کی جانی چاہئے ۔ سیاسی جماعتوں کو پاک آرمی کے مقابلے میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے ۔ اسلئے وہ آئینی اور قانونی گورکھ دھندوں کا سہارا لے رہی ہیں اور بدقسمتی سے عدلیہ انکا ساتھ دے رہی ہے ۔
تاحال پاک آرمی وہاں بھی کوئی سستی دکھانے پر تیار نہیں جس کا ایک ثبوت راحیل شریف کا ساؤتھ افریقہ کا دورہ ہے ۔
سنا ہے کراچی میں ضرب عضب سے بھاگ کر بہت سے لوگ ساؤتھ افریقہ گئے ہیں ۔ جہاں کی نہ صرف نیشنلٹی جلدی مل جاتی ہے بلکہ وہاں سے کراچی میں آپریٹ بھی کیا جا رہا ہے ۔
راحیل شریف کے لندن دورے کے بعد الطاف حسین پر مسلسل " دورے " آرہے ہیں ۔ ساؤتھ افریقہ کے اس دورے کے نتیجے میں بھی کچھ لوگوں پر سخت وقت آنے والا ہے ۔
انڈیا پاکستان کےخلاف اگر یہ پراکسی جنگ ہارتا ہے تو اس کے لیے مقبوضہ کشمیر پر بھی اپنا کنٹرول برقراررکھنا مشکل ہوجائیگا۔
لیکن اس جنگ میں مکمل فتح کے لیے آپکی فوج کو آپکی ضرورت ہے ۔ وہ اپ سے لڑنے کے لیے نہیں کہے گی ۔ انکو صرف آپکا اعتماد چاہئے ۔ یہ احساس کہ آپ ان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ بس ۔۔۔
باقی جنرل راحیل شریف اور جنرل رضوان اختر نامی دونوں شیر انڈیا کے لیے کافی ہیں ۔
No comments:
Post a Comment