Surah Baqarah
Part 11
آگے جانے سے پہلے، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے (ینفقون) پر میں اور بھی تفصیل میں جانا چاہتا ہوں.
ایک پرانی مثال ہے مگر آج کے دور میں بھی مفید ہے:
بچے بہت خود غرض ہوتے ہیں. میری بیٹی حسنہ چاکلیٹ کی بہت شوقین ہے. میں چاکلیٹ کھا رہا تھا، وہ مجھے دیکھ رہی تھی. مجھ سے کہنے لگی.
ابا کیا مجھے مل سکتی ہے؟؟
میں نےکہا: نہیں.
ابا کیا تھوڑی سی بھی نہیں ؟
اس پر میں نے اس کو دے دی اور کہا کہ صرف دس سیکنڈز کیلئے. اس کے بعد تم اسے مجھے واپس کر دوگی. اس نے چاکلیٹ پکڑی اور تیزی سے کھانا شروع کردی. وہ اس کو ختم کرنے کی کوشش میں تھی.
۱۰ سیکنڈ بعد چاکلیٹ ختم نا ہوئی سو میں نے اس سے واپس مانگی. تو پتا ہے اس نے کیا کیا؟
اس نے کہا 'یہ میری ہے.' اور یہ کہہ کر بھاگ گئی.
اسی طرح جب آپ کے بچے کسی کے گھر جاتے ہیں یا کوئی آپ کے گھر آئے، تو کیا کرتے ہیں؟
بچے کبھی بھی اپنے کھلونوں سے نہیں کھیلتے. صرف اسی وقت کھیلتے ہیں، جب کسی دوسرے کے بچے آپ کے گھر آئے ہوئے ہوں. تب وہ کہتے ہیں کہ یہ میرا کھلونا ہے، یہ میرا ہے. جیسے ہی مہمان بچے چلے جائیں،تو کھلونا وہ پھینکا اور یہ جا وہ جا.
مہمان بچے منتیں کر رہے ہوتے ہیں کہ کیا مجھے کھیلنے کی باری مل سکتی ہے؟
کیا میں ایک دفعہ اس سے کھیل سکتا ہوں؟
آخر کار میزبان بچہ اس کو وہ کھلونا بہت برے انداز میں عنائیت کر دیتا ہے.
اب وہ بچہ تھوڑی دیر ہی اس سے کھیل پاتا ہے کہ گھر جانے کا وقت ہو جاتا ہے،تو جس بچے نے کھلونا (کھیلنے کیلئے) ادھار لیا ہوتا ہے،،،کیا وہ آسانی سے واپس کر دیتا ہے؟ کیا آسانی سے گھر چلا جاتا ہے؟
نہیں ،ہرگز نہیں.. وہ کھلونا دینے سے منع کردیتا ہے یہاں تک کہ میزبان بچے کی ماں آ کر کہتی ہے کہ چلو تم لے جاؤ.
یہاں اب بچوں سے تھوڑا آگے آئیں.
یہ انسانی نفسیات ہے، جب ہمیں وہ چیزیں دی جائیں جو ہماری نا ہوں تو ہم بہت جلدی بھول جاتے ہیں کہ یہ ہماری چیز نہیں ہے. ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ہمیں دی گئی ہے اور یہ سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ یہ ہماری ہی ہے. اور ہم اسکو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں. جب کوئی مانگے تو ہم کہتے ہیں نہیں نہیں یہ ہماری ہے.
اب اللہ عزوجل کیا کہہ رہے ہیں؟ اللہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ"۔۔ینفقون۔۔"وہ خرچ کرتے ہیں".
لیکن اللہ کہتے ہیں.
"مما رزقنا ھم ینفقون"۔۔وہ خرچ کرتے ہیں اس میں سے ،جو ہم ان نے ان کو دیا ہے۔"
ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ ہمارا کچھ بھی نہیں ہے. بینک میں پیسے ہمارے نہیں ہیں، کار جس کو ہم چلا رہے ہیں ،وہ ہماری نہیں ہے، ہم ہر وقت کہتے ہیں میری قمیض، میری کار، میرا والٹ، میرا اکاؤنٹ، میرا گھر. ہم لفظ 'میرا' اتنا زیادہ استعمال کرتے ہیں کہ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ یہ اللہ کی ملکیت ہیں. میرا جسم، میری آنکھیں، میرے کان، میری ناک سب اللہ کا دیا ہوا ہے.
"انا لله وانا اليه راجعون"
هم سب سارے کے سارے اللہ کے ہیں. اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں. ہم کس طرح اپنی جائیداد کی بات کر سکتے ہیں جب ہمارا جسم ہی اللہ کی پراپرٹی ہے. ہماری جائیداد دراصل اللہ کی جائیداد کی ہی ایکسٹینشن ہے. اسی لئے یہاں اس بات کی خصوصی تلقین کی گئی ہے.
"مما رزقنا ھم ینفقون۔"
جو کچھ اللہ نے دیا ہے اس میں سے خرچ کرنا ہے.
گرائمر کے طالب علموں کی دلچسپی کی بات ہے کہ اس آیت میں صرف 'رزقنا' ہی فعل ماضی ہے.
باقی سب فعل حال ہے. ایمان لانا. نماز قائم کرنا،اور خرچ کرنا.
جبکہ صرف "رزقنا" (ہم نے دیا) فعل ماضی ہے. رزق فعل حال یا فعل مستقبل کے ساتھ نہیں ہے.
اللہ نے یہ نہیں کہا کہ مما نرزقھم ینفقون کہ میں تم کو دوں گا تو تم خرچ کرنا.
تو اسکا یہ مطلب ہے کہ آپ نے اللہ کی طرف سے آئیندہ زندگی میں دینے کا انتظار نہیں کرنا کہ اللہ آپکو دے گا تو پھر آپ خرچ کریں گے. نہیں ہر گز نہیں.
کچھ لوگ کہتے ہیں ناں کہ میں صدقہ کرنا چاہتا ہوں جب اللہ مجھے دے گا تب کروں گا.
وہ بھول جاتے ہیں کہ اللہ نے رزق تو دیا ہوا ہے اسی میں سے خرچ کرنا ہے.
یہ خرچ کرنے کی بات اللہ ہر ایک انسان سے کہہ رہے ہیں کہ میں نے تمہیں دیا ہے خرچ کرنے کیلیے. اگر تمہارے پاس دو دن ہے تو اس میں سے ایک مجھے دو. اگر ایک سیب ہے تو اسکا ایک ٹکڑا مجھے دو. اگر تمہارے پاس توانائی ہے تو اسکو میرے لیے خرچ کرو. اگر ٹیلنٹ ہے تو مجھے دو. ہر انسان کو کچھ نا کچھ دیا گیا ہے. اگر کچھ نا دیا ہوتا تو آپ آج اس دنیا میں سانس نا لے رہے ہوتے. اللہ نے یہ آیت صرف ارب پتی لوگوں کے لیے نہیں اتاری. اسکو اس بات کی پرواہ نہیں کہ آپ کتنا خرچ کرتے ہیں. اسکو بس یہ دیکھنا ہے کہ آپ کیسا خرچ کرتے ہیں. جو خرچ کررہے ہیں اسکا معیار اسکی کوالٹی دیکھی جاتی ہے مقدار نہیں. اس سے فرق نہیں پڑتا کوئی بیس ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے یا بس دو ڈالر خرچ کرتا ہے. ہوسکتا ہے جس نے بیس ہزار دیے ہوں اسکے پاس بیس لاکھ ہوں. اور جس نے دو ڈالر دیے ہوں اس کے پاس بس دس ڈالر ہوں. تو دیکھیں وہ دو ڈالر زیادہ قیمتی ہوئے نا. ہم کہتے ہیں اوہ واؤ بیس ہزار کا چیک. اور دو ڈالر کوئی خیرات دے تو اس سے اتنے خوش نہیں ہوتے. لیکن ان دو ڈالرز میں بیس ہزار سے زیادہ برکت ہوسکتی ہے اس نیت اور قربانی کی وجہ سے جو اس کے دینے والے کی ہے.
اللہ عزوجل قرآن میں فرماتے ہیں۔۔سورہ التوبہ 41
"انفرو خفافا وثقالا"
آگے بڑھئیے کم یا زیادہ جو بھی ہے خرچ کریں. اپنے آپ کو کبھی بھی انڈرایسٹیمیٹ نہ کریں کہ آپ نے کم دیا.
مثال کے طور پر چھوٹے بچے سکے جمع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں. ان کے پاس پیسے ہوتے ہیں. اور یہی پیسے وہ صدقہ باکس میں ڈال دیتے ہیں. آپ کے لیے شاید یہ سکے اتنے اہم نا ہوں. بعد میں جو چندہ باکس کھولتے ہیں وہ بھی سوچتے ہوں یہ ایک دو روپے کے سکے کس نے ڈالے. لیکن جس نے یہ چند سکے دیے ہیں اس کے لیے تو یہ سکے اہم تھے نا. اس کی جمع پونجی تھی یہ. اور اس نے اپنی جمع پونجی اللہ کو دے دی.
سو اپنے صدقہ کو کم نا سمجھیں. یہی ہے مما رزقنھم ینفقون.